9 نومبر 1877 کو سیالکوٹ کے ایک
نسلی کشمیری گھرانے میں پیدا ہونے والے علامہ اقبال کو نہ صرف ہندوستانی بلکہ پاکستانیوں،
ایرانیوں اور ادب کے دیگر بین الاقوامی اسکالرز نے بھی ممتاز شاعروں میں سے ایک کے
طور پر سراہا ہے۔
یہ
صرف اقبال کی شاعری ہی نہیں بلکہ کشمیری ثقافت سے اقبال کی محبت بھی تھی جس نے انہیں
عوام میں مقبول بنایا۔ اپنے بہت سے ادبی کاموں میں، وہ اکثر کشمیر اور کشمیر کی ثقافت
کا ذکر کرتے تھے۔
علامہ اقبال کی پہلی شائع شدہ شاعری کی
کتاب ’’خود کے راز‘‘ فارسی زبان میں 1915ء میں شائع ہوئی۔ علامہ اقبال کی دیگر عظیم
شاعری کے علاوہ
اگر ہم علامہ اقبال کی اردو تصانیف کی
بات کریں تو ادب کے سب سے مشہور اور قابل تعریف ٹکڑوں میں شامل ہیں - The Call of the Marching Bell, Gabriel's Wing, The Rod of
Moses, اور
"Gift From Hijaz" کا ایک حصہ۔
اقبال کی تمام کتابوں کے علاوہ یہ ان کی شاعری تھی جس نے ان کی شخصیت کا ایک الگ عنصر نکالا۔ شاعری اقبال کی شخصیت کی نمایاں ترین خصوصیات میں سے ایک تھی۔ اس نے لوگوں کے تمام گروہوں، ہر عمر کے، تمام انواع اور زبانوں میں شائریاں سنائیں۔
آپ کسی صنف، زبان کا نام لیں، اقبال نے اسے کیل لگایا ہے۔ فیڈنگ ٹرینڈز علامہ اقبال شایری کی فہرست لاتا ہے، جس میں 32 شائریوں پر مشتمل ہے، جو آپ کو سوچنے کے لیے غذا فراہم کرے گی اور آپ کے ذہن میں نئے افق کھولے گی۔
زندگی پر ان کی اقبال کی شاعری میں ایک گہرا سبق چھپا ہوا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ صرف مثبت عمل ہی زندگی میں کامیابی کا باعث بنتا ہے۔ اگر زندگی میں عمل نہ ہو تو انسانی جان کی کوئی قیمت نہیں۔
اقبال کی یہ شاعری اس حقیقت پر روشنی ڈالتی ہے کہ دعا چاہے کیسے بھی کی جائے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہے۔ لیکن اگر کوئی نماز میں اللہ سے کچھ نہ مانگے تو اللہ اس کی دعا پوری نہیں کر سکتا۔ یہ شعر مرزا غالب کے شعر سے ملتا جلتا ہے، 'ہم سے فناہ ہو گئے اسکی آنکھوں دیکھ کر' غالب' نصیب انکے بھی ہوتے ہیں جنکے ہاتھ نہیں ہوتے'۔
یہ اردو شعر عشقِ رسول پر بہت سی اقبالی
شاعری میں سے ایک مشہور شعر ہے، جو اللہ تعالیٰ پر لوگوں کے ختم ہوتے ایمان کو اجاگر
کرتا ہے۔ اقبال نے اپنے زمانے کے معاشرے کو خدا کو بھول کر مادیت پرستی میں گم ہو کر
خودغرض (خود غرض) کا نام دیا ہے۔ ایسے میں اقبال کو اس بات کی امید نہیں ہے کہ ان کی
تخلیقات کو کسی سے یاد کیا جائے گا۔
یہ شعری عشق رسول پر علامہ اقبال کی غزل کا حصہ ہے۔ یہ شعر ان لوگوں کے لیے جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں، مسجد (مسجد) کے تقدس اور تقویٰ کی عکاسی کرتا ہے۔ وہ شرابیوں سے کہتا ہے کہ وہ اپنے پینے کے معمولات کو انجام دینے کے لیے ملحدوں کے دل تلاش کریں۔ اسے کبھی کبھی غالب کے شیر کے جواب کے طور پر سمجھا جاتا ہے، 'زاہد شہر پینے دے مسجد میں بیت کر، یا پھر و جگہ بتا دے کے جہاں خدا نہیں'۔
0 تبصرے