پریزاد لیلیٰ کی خوبصورتی اور معصومیت سے متاثر ہو جاتی ہے جیسا کہ دیگر تمام خوبصورت خواتین اس کی زندگی میں آئی تھیں۔ لیکن وہ پھر اسے اپنے بوائے فرینڈ ولید کے ساتھ فرار ہونے کے لیے استعمال کرتی ہے۔ پریزاد الزام لگانے کی کوشش کرتا ہے لیکن بہروز کو حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ بہروز دبئی میں گرفتار ہو جاتا ہے اور وہ اپنی رقم پریزاد کو دیتا ہے اور اسے پاکستان واپس جانے کو کہتا ہے۔
پریزاد
پاکستان واپس آیا اور اب وہ ایک امیر آدمی ہے۔ جب اس کی جیب میں پیسے ہوتے ہیں تو اس
کے بارے میں لوگوں کا رویہ بدل جاتا ہے۔ پیرزاد ایک لڑکی قرۃ العین عرف عین سے ملتا
ہے۔ یمنہ زیدی نے ڈرامے میں عینی کا کردار ادا کیا ہے۔ وہ پریزاد کی شاعری کی مداح
ہے اور اس بار وہ اس سے حقیقی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے۔ پریزاد اب گہری محبت میں
ہے، عارضی کشش نہیں۔ یہاں تک کہ وہ پلاسٹک سرجری کے بارے میں سوچتا ہے کہ وہ اچھا نظر
آئے جب عین اسے دیکھ سکے۔
پریزاد
ایک بار پھر اکیلی رہ جاتی ہے اور عین کا کزن عدنان جو اس سے پیار کرتا ہے اسے آنکھ
کی سرجری کے لیے لے جاتا ہے۔ وہ اسٹیشن جاتا ہے اور فقیرہ سے ملتا ہے اور وہاں اپنا
وقت گزارتا ہے۔ لوگ اسے صوفی سمجھتے ہیں اور اس کے لیے دعائیں مانگتے ہیں۔
پیرزاد
شہر چھوڑ دیتا ہے کیونکہ وہ لوگوں کی درخواستوں سے ناراض ہے۔ یہاں تک کہ نئے شہر میں،
پریزاد کی دعا سنی جاتی ہے اور لوگوں کو وہی ملتا ہے جو انہوں نے اس سے دعا کرنے کی
درخواست کی تھی۔ وہ کچھ دیر بعد اپنے شہر واپس آتا ہے۔ وہ اپنی صحت کا خیال نہیں رکھتا
اور دن بدن کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔
ایک
دن، ایک لڑکی پریزاد کے لیے خصوصی دعا کے لیے آتی ہے تاکہ وہ کسی ایسے شخص کو تلاش
کر سکے جسے وہ تلاش کر رہی ہے۔ وہ لڑکی عین نکلی، اس نابینا لڑکی پریزاد کو محبت تھی۔
عین کو کمالی سے پریزاد کے احساسات کا علم ہوا۔ وہ اسے ڈھونڈنے واپس آئی لیکن اب بہت
دیر ہو چکی تھی۔ ناول کی کہانی کے اختتام پر پریزاد کی موت ہو جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے
کہ ڈرامے کی کہانی کے لیے اختتام مختلف ہو۔
تو
یہ ہے ناول پریزاد کی کہانی کا خلاصہ۔ اس کہانی میں خوبصورت پیغامات ہیں اور ہمارے
معاشرے کا ایک تلخ پہلو دکھایا گیا ہے۔ ہم کتابوں کو ان کے سرورق سے پرکھتے ہیں۔ ہم
لوگوں کو ان کے طرز عمل، انداز اور پاکیزگی کی بجائے ان کی شکل کی بنیاد پر پرکھتے
ہیں۔
تو
یہ ہے ناول پریزاد کی کہانی کا خلاصہ۔ اس کہانی میں خوبصورت پیغامات ہیں اور ہمارے
معاشرے کا ایک تلخ پہلو دکھایا گیا ہے۔ ہم کتابوں کو ان کے سرورق سے پرکھتے ہیں۔ ہم
لوگوں کو ان کے طرز عمل، انداز اور پاکیزگی کی بجائے ان کی شکل کی بنیاد پر پرکھتے
ہیں۔
0 تبصرے